Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام از نشال عزیز قسط نمبر16

زبرین کے کٹر پر دباؤ بڑھانے سے نتاشہ سانس روک گئی،تبھی کھاٹ کی آواز کے ساتھ نتاشہ کی دلخراش چیخ فضا میں بلند ہوئی،ہاتھ سمیت پورا جسم سن ہوکر رہ گیا،کچھ دیر بعد اس نے بھیگی نظریں جھکائیں پھر ٹھٹھک کر تحیر سے زبرین کو دیکھنے لگی جو ناجانے کب وہ کٹر اسکی انگلی سے نکال کر دور پھینک چکا تھا اور اب اسکی سرد نظریں خاموشی سے نتاشہ کے چہرے کا طواف کررہی تھیں،اسکی آنچ دیتی نظریں مسلسل خود پر پاکر وہ نگاہ جھکاگئی،کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اپنے محبوب شوہر سے اس قدر بھی ڈرے گی وہ،جسم پر اب تک کپکپاہٹ طاری تھی اسکے ہاتھ میں رکھا اپنا ہاتھ تک ہٹانے کی نتاشہ میں ہمت نہیں تھی کہ اگر برا لگا تو کہیں سچ میں ہی انگلی نہ کاٹ دے،زبرین بغور اسکا ایک ایک نقش نظروں میں اتار رہا تھا،کیا سچ میں وہ لڑکی اتنی اذیتوں کے بعد بھی اس سے محبت کی دعویدار تھی یا پھر یہ صرف یہاں سے بچ نکلنے کا ایک ڈرامہ تھا،اسکی سوچ کا محور فون پر ہوتی رنگ سے ٹوٹا،نمبر دیکھ کر زبرین کے لبوں کو طنزیہ مسکراہٹ نے چھوا،نتاشہ کا ہاتھ چھوڑتے وہ اٹھا پھر سائیڈ میں جاتے ہوئے کال ریسیو کی، دیکھو زیبی۔۔۔۔تم نتاشہ کو کچھ مت کرنا بدلے میں۔۔۔میں تمہاری پوری تو نہیں پر آدھی مانگ پوری کرسکتا ہوں۔۔۔۔اسمگل ہونے والی لڑکیوں میں سے اگر تم کہو تو آدھی آزاد کردونگا پر تم نتاشہ کے ساتھ اب کچھ نہیں کرنا۔۔۔ اسکے ریسیو کرتے ہی دوسری طرف سے طاہر علوی نے جلدی جلدی کہا،انکے بات ختم کرنے تک وہ کچھ سوچتا رہا، زیبی؟ انہیں شک گزرا کہ وہ انکی بات سن بھی رہا ہے یا نہیں، آج شام تک آزاد کرو۔۔۔۔ لٹھ مار لہجے میں کہا گیا جس پر طاہر علوی خون کے گھونٹ بھر کے رہ گئے ٹھیک ہے تو پھر نتاشہ کو بھی تم شام کو۔۔۔ وہ میں خود ڈیسائیڈ کرونگا۔۔۔ انکی بات کاٹتے ہوئے وہ سرد لہجے میں گویا ہوا،طاہر علوی نے لب بھینچے تھے لیکن بعد میں اگر تم مُکر گئے۔۔۔۔مطلب نتاشہ کو چھوڑنے سے انکار کردیا تو۔۔۔ انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا تو زبرین نے فون کان سے لگائے ہی پلٹ کر نتاشہ کو دیکھا جسکی خوفزدہ نظریں اب تک دور پھینکے کٹر پر تھیں، زبرین افتخار نے شیر جیسی نفرت تو سیکھی ہے پر گیدڑوں جیسا مکرنا نہیں۔۔۔ ان پر طنز کرتا وہ بولا پر لہجہ خود اسکا ہلکا ہوا تھا،سینے پر رکھے پتھر پر پڑی دراڑ بڑھی تھی،نظریں اب تک اس پری پیکر پر تھیں،جس کا اس نے کچھ عجیب ہی حشر کر کے رکھ دیا تھا اپنی نفرت میں، شام کو میں لڑکیوں کو (.....)پُل پر بھیجوں گا۔۔۔۔وہاں سے انہیں ریسیو کرلینا۔۔۔اور تم۔۔۔ طاہر علوی کہہ ہی رہے تھے کہ اپنے مطلب کی بات سنتے ہی اس نے کال کاٹی،جیسے انکی آواز صرف مجبوری میں سن رہا ہو،دوسری جانب طاہر علوی اسکے کال کاٹنے پر فون کو گھورتے رہ گئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دھوکے باز انسان ہے؟ یمنا نفرت سے گویا ہوئی، اس نے تیمور کو ایک ریسٹورنٹ میں بلایا تھا،صبح طاہر علوی نے جب اسے ادیان کی اصلیت بتائی تب وہ جھنجھنا کر رہ گئی تھی،اور اب بیٹھی اپنی بھڑاس نکال رہی تھی۔ ویسے دیکھا جائے تو اصل دھوکے باز تمہارے وہ پاک پارسا دکھنے والے علوی انکل ہیں۔۔۔۔ملک کے غدار اور فریبی۔۔۔ تیمور تمسخر سے اسے دیکھتے ہوئے بولا،یمنا نے اسکے لہجے پر ناگواری ظاہر کرتے ہوئے ترچھی نظروں سے اسے گھورا پھر واپس گردن موڑ کر شیشے سے باہر نیچے اپنی منزل پر روا دواں گاڑیوں کو دیکھنے لگی،ان گاڑیوں میں کتنی ہی معصوم لڑکیاں ہونگی بلکل ویسی جیسی اس نے دوستی کے جھانسے میں پھنسا کر اغواء کروائیں تھیں،اس وقت تو وہ ان لڑکیوں کی بےوقوفی پر ہنستی تھی پر جب سے نتاشہ ان ایجنٹس کے قید میں گئی تھی،تب سے اسے پچھتاوا ہوتا اپنے کیے پر، میں نے کچھ کہا تھا تم سے؟ اچانک تیمور کے پوچھنے پر وہ چونکی تھی،پھر ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی، کیا؟ اسکے سوال پر تیمور نے گہرا سانس بھرا نتاشہ کی بےگناہی کو کوئی تو پرُوف ہوگا۔۔۔جسے یُوز کرکے ہم نتاشہ کو اس قید سے نکال سکیں۔۔۔ سینے میں بازو باندھتے ہوئے اس نے وہی بات پوچھی تو یمنا نے آہستگی سے نفی میں سر ہلایا جہاں تک میری انکوائری تھی۔۔۔۔اس میں طاہر علوی کی بیٹی اسکے ہر پلین کا علم رکھتی تھی پر اب تو مجھے بھی نتاشہ انوسینٹ لگتی ہے۔۔۔آخر کون ہی لڑکی ہوگی جو اتنی اذیتوں کے بعد بھی کچھ نہ بتائے۔۔۔۔ وہ اب تک کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اسے بتارہا تھا پر یمنا نے اسکی بات پر نظریں چرائیں تھیں،اس انسان کے سامنے بیٹھے اسے اپنا آپ نہایت چھوٹا محسوس ہوا،کتنے لوگوں کی گناہگار وہ کتنی سکون سے اسکے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ دوسری طرف اسکی عزیز دوست اسکا کیا بھگت رہی تھی،شرمندگی سے وہ سر جھکاگئی،نتاشہ کو دیے گئے ریمانڈ کو دیکھ کر ہی وہ کانپی تھی،بجا کہ وہ لڑکی ان لوگوں کے کتنے ٹورچر سہتی ہوگی بنا کسی گناہ کے،اس نے بےساختہ جھرجھری لی،تیمور اور بھی کچھ کہہ رہا تھا پر جھٹکے سے وہ اٹھی، کیا ہوا؟ تیمور نے اچھنبے سے اسکے چہرے پر بارہ بجے دیکھ کر پوچھا پر وہ اسے حیران چھوڑے اپنا کلچ اٹھا کر تیزی میں وہاں سے نکلی،اگر تھوڑی دیر بھی وہ اور اسکے ساتھ بیٹھتی تو ضرور اپنی اصلیت اسے بتا بیٹھتی، باہر نکل کر وہ اپنی کار چھوڑے پیدل ہی چلنے لگی تھی،یہ پچھتاوا اسے اندر ہی اندر مارنے لگا تھا،اگر وہ سرینڈر کرتی تو طاہر علوی کا بھروسہ ٹوٹتا اور اگر یہ سب کرتی تو ضمیر کا بوجھ اور بڑھتا،اپنے گناہوں کی بدولت وہ آج زندگی میں ایسے دوراہے پر آکھڑی ہوئی تھی جہاں سے نہ وہ پیچھے ہٹ سکتی تھی اور نہ ہی مُوو آن،اندر کی گھٹن بڑھنے پر اسکی آنکھیں بھیگی تھیں،دل میں شدت سے خواہش ابھری تھی مرنے کی تاکہ ان سب سے جان چھوٹے اور سکون حاصل ہو اسے،پر اس ایک لڑکی پر کتنے ہی معصوم اور بےگناہوں کی بددعاوں کا بوجھ تھا جسکی وجہ سے سکون تو شاید اسے کبھی نہ ملتا پر قسمت بھی اسے یوں بخشنے والی نہیں تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوپہر کو اسکی ڈیوٹی ختم ہوئی تو وہ تہ خانے سے نکلنے لگا پر اس آدمی سمیت چند آدمی تہ خانے میں داخل ہوئے،ایک نظر انہیں دیکھ کر وہ تہ خانے کی سیڑھیوں کی جانب گیا،پر اس آدمی کی پکار پر رکا، باس کا آرڈر ہے کہ قید ہوئی لڑکیوں میں سے آدھی لڑکیوں کو کہیں لے جانا ہے۔۔۔۔ابھی مت جاؤ تم۔۔۔ اس آدمی کی بات پر زین نے اچھنبے سے اسے دیکھا،پر کندھے پہ ہوتے درد کو دیکھ اس نے انکار کرنا چاہا تبھی اسکا فون رنگ کرنے لگا،زبرین کا نمبر دیکھ رات کا منظر آنکھوں میں تازہ ہوا،گلے میں ابھرتی گلٹ کو چھپائے اس نے کال ریسیو کی، آدھی لڑکیوں کی آزادی کا مطالبہ ہوا ہے۔۔۔۔نظر رکھنا کوئی گڑبڑ نہ ہو۔۔۔ مختصر بات کہہ کر اس نے کال کاٹ دی،جبکہ زین کو شدید حیرت ہوئی کہ آخر مطالبہ کس پر اور کیسے ہوا،وہ پوچھنا چاہتا تھا زبرین سے پر ساتھ یہ بھی جانتا تھا کہ ابھی اس نے مجبوراً صرف کام کے لیے کال کی تھی،وگرنہ اپنے مجرموں کو وہ یونہی معاف نہیں کرتا اور یقیناً اسے بھی وہ بناسزا کہ معاف کرنے والا نہیں تھا، کس کی کال تھی؟ اس آدمی کی آواز پر وہ سوچوں سے نکلتا ہوا ان سب کی طرف متوجہ ہوا جو شکی نظروں سے اسے گھور رہے تھے۔ رانگ نمبر تھا۔۔۔ لہجے کو لاپرواہ بناتے ہوئے اس نے کہا ساتھ ہی ان لوگوں کے ساتھ اندر گیا،لڑکیوں کو نکالتے ہوئے ایک بار پھر سبھی لڑکیوں کی یکے دیگرے چیخوں پکار اور رو ے کی آواز گونجنے لگی، آدھی لڑکیاں نکالنے کے بعد جب وہ آدمی انہیں لیے باہر چلے گئے،تب زین نے ایک آخری نگاہِ غلط باقی خوفزدہ بیٹھی لڑکیوں پر ڈالی پر تبھی اسے وہ دِکھی،کمرے کے دوسرے طرف بلکل کونے میں گھٹنوں کے گرد دونوں بازو حائل کیے بیٹھی تھی،آج اسکی نظروں کا ارتکاز زین نہیں تھا بلکہ چپ چاپ بیٹھی وہ زمین کو گھور رہی تھی،زین کے قدم خودبخود اسکی طرف اٹھے تھے،اسکے سر پر پہنچ کر وہ چند لمحے یونہی اسے خاموشی سے دیکھتے رہنے کے بعد کہا اٹھو۔۔۔ اسکی بھاری آواز پر ازہا چونکی،سر اٹھاکر اس نے ایک نظر مقابل کو دیکھا،نظروں میں واضح شکوہ تھا،پھر واپس سر جھکا گئی میں۔۔۔تمہی۔۔۔سے مخاطب۔۔۔ہوں۔۔ ٹہر ٹہر کر بولتا وہ اسے پریشان کرگیا تھا پر اس بار ا،ہا نے سر ہی نہیں اٹھایا،اسکی ہڈ دھرمی دیکھ زین کا خون جلا تھا،تبھی تھوڑا جھک کر اس نے ازہا کا بازو مٹھیوں میں دبوچا پھر جھٹکے سے اسے کھڑا کرتے ہوئے کمرے سے نکلا،اس اچانک آفتادہ پر ازہا بوکھلائی تھی، چھو۔۔۔چھوڑو۔۔۔مجھے۔۔ تہ خانے کی سیڑھیوں کے قریب پہنچ کر بولتے ساتھ ازہا نے اسکی گرفت سے اپنا ہاتھ جھٹک کر چھڑوایا،زین نے ایک ناگوار نظر اس پر ڈالی۔ نہیں جانا مجھے کہیں۔۔۔آخر تم حیوانوں کو رحم کیوں نہیں آتا ہم لوگوں پر۔۔۔اب بخش دو۔۔۔ بھیگے لہجے میں کہتے ساتھ وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے رودی،زین نے اسکے بآواز رونے پر ایک نظر گیٹ کی طرف دیکھا جہاں دونوں گارڈز کھڑے تھے پر انکی جانب متوجہ نہ تھے، کیا تم یہاں سے آزادی نہیں چاہتی۔۔۔ دھیمے لہجے میں کہی گئی اسکی بات پر ازہا نے جھٹکے سے زین کو دیکھا،اسے رونا ہی بھول گیا،وہ یوں تحیر نظروں سے زین کو دیکھنے لگی جیسے اسکی بات پر یقین ہی نہ ہو، کیا مطلب؟ اسکے بےیقین لہجے پر زین نے زخمی کندھے پر ہاتھ رکھے نگاہ پھیری اسے کل رات کے احسان کا بدلہ سمجھ لینا۔۔۔۔۔ یہ بات کہتے ہوئے اسنے ازہا کی طرف دیکھنے سے مکمل پرہیز کیا آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں۔۔۔ وہ جیسے اب تک بےیقین تھی تبھی ساکت کھڑے رہتے ہلکی آواز میں بولی،کندھے پر درد سے مسلسل اٹھتی ٹیسوں پر زین کا ضبط جواب دے رہا تھا،اسے ٹریٹمنٹ کی ضرورت تھی پر یہاں اس لڑکی کی دیری کرنے پر اس نے لب بھینچے، تمہیں یقین کرو یا نہ کرو میری بلا سے کچھ بھی کرو۔۔۔۔پر اگر جان کی امان چاہتی ہو تو چلو۔۔۔ورنہ جیسی تمہاری مرضی۔۔۔۔ اسے گھور کر بولتا ہوا وہ مڑ کر سیڑھی چڑھنے لگا رکیں۔۔۔ ازہا کی پکار پر اسکے سیڑھیاں طے کرتے قدم رکے،ازہا نے ایک نظر بھرائی نظروں سے اس گیٹ کی طرف دیکھا،کمرے میں اندر روِش بھی تھی، باقی لڑکیاں۔۔۔؟ وہ جزبز کا شکار اس سے پریشان کن لہجے میں پوچھی تمہیں انکی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ وہ بولتے ہوئے اوپر چڑھ کر تہ خانے سے نکلا،کچھ دیر بعد ازہا گومگو کی کیفیت میں رہنے کے بعد دعا پڑھتی اسی کے پیچھے اوپر آگئی، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بہت خوش لگ رہی ہو۔۔۔ یمنا باہر سے آئی تو طاہر علوی نے اسے زبرین سے ہوئے گئے مطالبے کے بارے آگاہ کیا،انکی اور باتوں پر اس نے اتنا دھیان نہیں دیا البتہ نتاشہ کی واپسی کا سن کر وہ بےحد خوش تھی،اسکا دمکتا چہرہ دیکھ طاہر علوی نے پوچھا بات ہی خوشی کی ہے۔۔۔۔آفٹر آل میری دوست جو آزاد ہونے والی ہے انکی قید سے۔۔۔۔ بولتے ہوئے اسکا لہجہ کافی خوشگوار ہوا تھا،طاہر علوی چپ چاپ اسکے دمکتے چہرے کو دیکھنے کے بعد گویا ہوئے، دوست کے آنے کی خوشی بہت ہے۔۔۔۔۔میرے نقصان کی نہیں۔۔۔ انکے ناگوار لہجے پر یمنا کی مسکراہٹ سمٹی تھی،جانتی تھی وہ آدھی لڑکیوں کے بازیاب ہونے پر اسے چوٹ کر رہے تھے، آپ نے کچھ سوچ کر ہی یہ فیصلہ کیا ہوگا۔۔۔ ان سے نگاہ چراتے ہوئے ہمنا نے کہا تا طاہر علوی ہنکارہ بھر کے رہ گئے ہممم۔۔۔۔سوچ کر ہی کیا ہے پر تم اچھے سے جانتی ہو کہ بھلے زرا سا ہی کیوں نہ پر نقصان برداشت نہیں کرتا میں۔۔۔ گہری سوچ میں غوطہ زن وہ اپنی بات کہہ کر اٹھے گئے،یمنا نے افسوس سے انکی پشت کو دیکھا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زین کی مسڈ کال پر اس نے پل میں اپنی گاڑیاں بھجوائیں تھیں بازیاب لڑکیوں کے لیے،فلحال اس نے لڑکیوں کو سیف ہاؤس بھجوایا تھا تاکہ ہر ایک سے اسکے گھر کا پتا معلوم کر کے انکے اہلِ خانہ تک پہنچایا جائے، ابھی وہ سیف ہاؤس کا چکر لگانے آیا تھا،مِس ہما سمیت کافی لیڈی افسران ان لڑکیوں کی رہنمائی کررہی تھیں،کچھ جو بیمار تھی تو انکا ٹریٹمنٹ الگ رومز میں ہورہا تھا،مس ہما اور ازہا کی ایک دوسرے پر نظر پڑتے ہی خوشگوار حیرت ہوئی،دونوں کافی دیر تک گلے لگے روتی رہی تھیں،زبرین نے ایک اچٹتی نظر سب پر ڈالی،تبھی زین اسے سیکنڈ فلور سےسیڑھیاں طے کرتت نیچے آتا ہوا نظر آیا،وہ کپڑے چینج کرچکا تھا البتہ شرٹ کے اوپری بٹنز کھلے رہنے کی وجہ سے اسکے رائٹ سائیڈ گردن کے نیچے برابر میں سفید پٹی بندھی نظر آرہی تھی،شاید وہ ابھی کندھے پر ڈریسنگ کر کے آیا تھا،زبرین اسے ایک نظر دیکھ کر ناگواریت سے نگاہ پھیر کر سیف ہاؤس میں گراؤنڈ فلور پر بنے اپنے آفس میں چلاگیا،زین اسی کے پیچھے نیچے اسکے آفس میں آیا تھا، بھلے ہی سزا دیدے پر بات تو کرلے۔۔۔ آفس کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے زین نے اس سے کہا جو اب اپنی راکنگ چئیر پر بیٹھا پیپر ویٹ ٹیبل پر گھما رہا تھا، سزا۔۔؟ اسکے لب ہلے تھے جبکہ آنکھوں میں وہ منظر گھومنے لگا جب وہ سیف ہاؤس میں انٹر ہوا تھا،تب سے اس کی زیرک نظروں نے ایک چیز نوٹ کی تھی،اور وہ تھی مس ہما کی بہن کا خاموش نظروں سے بار بار زین کو دیکھنا،زین بھلے اسکی نظروں سے انجان تھا پر زبرین نے بخوبی اس منظر کو اپنے تیز دماغ میں محفوظ کیا تھا،جب تک زین فرسٹ فلور سے سیکنڈ فلور میں نہ چلاگیا تب تک ہر تھوڑی دیر میں ازہا کا ایک نظر لازمی اسے دیکھنا زبرین کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ لاگیا، سزا جو دوں گا۔۔۔وہ قبول ہوگی؟ سرد لہجے میں اسکا پوچھنا تھا کہ زین کو کچھ کھٹکا ہوا، ہاں۔۔۔ اس نے سنجیدگی سے کہہ تو دیا پر الجھی نظروں سے زبرین کے چہرے پر پھیلی کمینگی دیکھنے لگا،آخر ایسی کیا سزا دینے والا تھا وہ کہ اس قدر خوش ہورہا تھا، ہماری ٹیم کی لیڈی آفسر ہُما۔۔۔۔۔۔اسکی بہن۔۔۔کیسی ہے وہ۔۔۔۔ زین جو کنفیوز سا اسکے چہرے کو تک رہا تھا زبرین کی بات پر اچانک اسکے تاثرات بدلے،یہ تو اس نے بھی دیکھ لیا تھا کہ کل جس لڑکی نے اسکی مدد کی تھی وہ مس ہما کی بہن تھی،پر زبرین کا معنیٰ خیز لہجہ اسکا خون کھولا گیا،زبرین کے لہجے کی باریکی کو زین خوب سمجھ رہا تھا،اسکی پیشانی پر ابھرتی رگیں دیکھ زبرین کی مسکراہٹ گہرے ہوئی تھی، وہ لڑکی بہت چھوٹی ہے۔۔۔ زین کے لہجے میں بلا کا ضبط محسوس ہورہا تھا،آنکھیں پل میں سرخ ہوئی تھیں زیادہ چھوٹی نہیں ہے۔۔۔۔تمہارے لیے پرفیکٹ ہے۔۔۔میں ہما سے بات کرونگا۔۔۔۔ اسکے تنے ہوئے ایکسپریشن انجوائے کرتے ہوئے زبرین نے محضوظ ہوتے ہوئے کہا، دیکھ زبرین۔۔۔جو سزا دینی ہے دے۔۔۔پر۔۔ تمہاری طرف سے ہاں ہے یا نہ۔۔۔۔ زین کی بات کاٹتے ہوئے اس نے اچانک سپاٹ تاثرات سمیت پوچھا جیسے آگے اور کچھ نہ سننا چاہتا ہو،زین نے جلتی آنکھوں سے اپنے اس دوست کو دیکھا جو پہلی بار اسے جانتے بوجھتے اتنی بڑی تکلیف پہنچارہا تھا،بےساختہ ذہن میں نتاشہ کا خوبصورت چہرہ گھوما تو بےبسی سے اسکی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آئی، جو کرنا ہے کر۔۔۔ اپنی بھاری ہوتی آواز پر بمشکل قابو پاتے ہوئے زین نے کہا پھر جھٹکے سے گیٹ کھول کر آفس سے نکلتا سیکنڈ فلور پر جانے کے لیے تیزی سے سیڑھیاں چڑھیں،،وہ کیسے اقرار کر کے آگیا تھا زبرین کے سامنے،اس نے تو عہد کیا تھا کہ نتاشہ نہیں تو کوئی نہیں پھر کیسے وہ یہ کرسکتا تھا،دوستی کے آگے اپنی محبت قربان کرنے کی یہ سزا ملے گی اس نے سوچا بھی نہیں تھا،فرسٹ فلور پر پہنچ کر وہ سیکنڈ فلور کی سیڑھیوں کے جانب مڑا ہی تھا کہ ایک بار پھر اسے خود پر نظروں کا ارتکاز محسوس ہوا،گردن گھومانے پر نظریں سیدھا ازہا کی نظروں سے ٹکرائی،ازہا جو روم سے نکل کر ہما کو ڈھونڈ رہی تھی پر زین کو اوپر جاتا دیکھ وہ پھر اسے دیکھنے لگی تھی پر اب زین کی انگارہ ہوتی نظریں دیکھ وہ بوکھلائی،زین نے بمشکل اسکی یہ حرکت ضبط کی،دل کا درد حد سے سوا ہوا،ناگوار نظروں سے اس چھوٹی سی لڑکی کو گھورتے ہوئے وہ اوپر گیا تھا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments